جلائے رکھتی ہوں دل میں تری ثنا کے چراغ

جلائے رکھتی ہوں دل میں تری ثنا کے چراغ

جگا رہے ہیں تخیل ، تری وِلا کے چراغ


ترے ہی نُور سے روشن ہوئے ہیں دونوں جہاں

ہیں مہر و ماہ، ستارے تری ضیا کے چراغ


اندھیری شب کا تصور نہیں حیات میں اب

’’حریمِ جاں میں ہیں روشن تری عطا کے چراغ‘‘


خوشا نصیب کہ شہرِ کرم میں آئی ہوں

جلے ہیں اُن کی رضا سے مری دعا کے چراغ


ملی ہے عشقِ محمد سے روشنی جن کو

وہی تو رکھے ہیں میں نے بچا بچا کے چراغ


خدا تو مالکِ کُل ہے حُضور قاسم ہیں

انہی کے پاس خزانے ہیں اور سخا کے چراغ


وفا کی روشنی بڑھ کر ہے ان اجالوں سے

یہی بتایا تھا ، شبیر نے بجھا کے چراغ


اے نازؔ کاش تُو ہوتی کنیز زہرہ کی

تو اُن کے حجرے میں رکھتی جلا جلا کے چراغ

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

خواب میں ہی سہی اُس رشکِ قمر کی صورت

آیا ہے بُلاوا پِھر اِک بار مدینے کا

قلزمِ عشق میں اک شان سے جو ڈوبیں گے

عاشق کو بھا سکے گی نہ رنگِ چمن کی بات

اس کو کیا واسطہ مدینے سے

کب ہوگی شبِ ہجراں کی سحراے سرورِ ؐ عالم صلِّ علیٰ

ناں دُکھ مکدے ناں مکیاں نے اُڈیکاں یا رسول اللہ

سُن کے اقرا کی صداساری فضا کیف میں ہے

جل رہے ہیں بدن درد کی دھوپ میں

رُتبہ عالی شان ملا ہے