مرے لب پر شہِ بطحا کی نعتوں کے ترانے ہیں

مرے لب پر شہِ بطحا کی نعتوں کے ترانے ہیں

بڑا مسرور ہے دل بھی یہ پل کتنے سہانے ہیں


اُنہی کے ذکر سے ساری بہاریں لوٹ آتی ہیں

بڑی پُر نور گھڑیاں ہیں بڑے رنگیں زمانے ہیں


یہی چاہت ہے مدت سے کبھی ہو جائے گی آمد

درودِ پاک کے گجروں سے اپنے گھر سجانے ہیں


ازل سے ہی سہارا ہے مجھے آقا کی یادوں کا

خوشا میرے بھی دامن میں محبت کے خزانے ہیں


انہی کے نام سے ہی نور کی خیرات ملتی ہے

یہ پیارا نام لے کر ہی نصیب اپنے جگانے ہیں


گزر جائے حیاتِ ناز سب آقا کی مدحت میں

عقیدت کے حسیں موتی مجھے چن چن لٹانے ہیں

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

مصطفےؐ مجتبیٰؐ سلام علیک

نہ عرشِ ایمن نہ اِنِّیْ ذَاھِبٌ میں مہمانی ہے

ہیں درپئے آزار ستم گر، مرے سرورؐ

رُتبہ عالی شان ملا ہے

حرم سے گفتگو کرتی ہواؤں میں اُڑا دینا

ہماری آپ سے اتنی سی منت یا رسول اللہﷺ

ہم پہ نَظرِ کرم، تاجدارِحرم

اج یتیماں دے مقدر دا ستارا چمکیا

آگئے آگئے مصطفی آگئے

بے سہارا ہیں ترے در پہ آئے بیٹھے ہیں