نظر ہوئی جو حبیبِ داور ! گھڑی بہت خوشگوار آئی
برس گئے ہیں سحابِ رحمت مرے چمن میں بہار آئی
وجود میرا مہک رہا ہے کہ کھل گئے ہیں گلاب دل کے
نسیم طیبہ دمِ سحر جھومتی ہوئی مشک بار آئی
پیام چپکے سے دے گئی ہے کہ شاہِ بطحا بلا رہے ہیں
سنا جو پھردل پہ ہاتھ رکھ کر یہی ندا بار بار آئی
جو پڑھ رہی ہیں درود سانسیں تو روح بھی جگمگا اٹھی ہے
سو چاندنی کا سماں ہے ہر سو ضیا رُخِ نور بار آئی
مرے تصور میں آرہے ہیں وہ پیارے پیارے حسین منظر
کبھی جو گزرے تھے دن وہاں ان کی یاد بن کر قرار آئی
کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے خوشی کے لمحات آ رہے ہیں
اے ناز جاگے ترے مقدر ہے رحمتِ کردگار آئی