رکھ لیں گے ہم جو سیرتِ سرکار سامنے

رکھ لیں گے ہم جو سیرتِ سرکار سامنے

ہوگی نہ پھر کبھی رہِ دشوار سامنے


ہو روضۂ رسول پھر اک بار سامنے

میں پھر سنائوں نعتیہ اشعار سامنے


طیبہ کے ایک خار کے جیسا نہ پائوگے

لے آئو کُل جہان کے گلزار سامنے


سُن کر ، بلا درود ، بلائوں میں گِھر گئی

دیکھو کھڑی ہے بے کس و لاچار سامنے


آتے ہیں سانس روکے جنید اور بایزید

ہے روضۂ رسول خبردار ! سامنے


سرکار کی نگاہ پڑی اور گِر گئی

آئے تھے جو عمر لیے تلوار سامنے


پھر کیوں کسی کو حالِ غمِ دل سنائوں میں

’’ جب ہو مِرے حضور سا غمخوار سامنے‘‘


ہم دیکھ لیں جو طیبہ کی چھوٹی سی اِک گلی

آ جائے کِھنچ کے مصر کا بازار سامنے


پھر سے وہ دن نصیب ہو یا رحمتِ تمام

روضے کے پھر ہوں وہ درودیوار سامنے


ہوگا سماں وہ بیعتِ رضواں کا دیدنی

اصحاب کر رہے تھے جب اقرار سامنے


مرنے کا پھر کسے نہ مزہ آئے گا شفیقؔ

وقتِ اجل اگر ہو رُخِ یار سامنے

شاعر کا نام :- شفیق ؔ رائے پوری

کتاب کا نام :- متاعِ نعت

دیگر کلام

تصوّر میں اُنہیں ہم جلوہ ساماں دیکھ لیتے ہیں

گدائے کوئے حبیبؐ ہوں ملا ہے کیا دم بدم نہ پوچھو

مقدور میں دیارِ حَرم کا سفر کہاں

ایتھے اوتھے کل جہانیں درد غماں نے گھیر لئی

کہاں ہو یَا رَسُوْلَ اللہ کہاں ہو

کس نے سمجھا قرآن کا ماخذ

میں بھی گداگر کہلاتا ہوں شاہِ زمن کی چوکھٹ کا

اے رحمتِ کُل

ہے تشنہ آرزو ‘ آقا !

نبی ہیں کعبہء مقصود دیں کا قبلہ بھی