ترے در پر جو کیف آیا کہیں جا کر نہیں آیا

ترے در پر جو کیف آیا کہیں جا کر نہیں آیا

اُسے اللہ لائے جو ترے در پر نہیں آیا


بدل ڈالی نگاہِ حُسن نے تقدیرِ آئینہ

مَیں بے جوہر گیا لیکن مَیں بے جوہر نہیں آیا


وہاں میں نعت کیا پڑھتا کہ اتنا تھا جلال اُن کا

کہ مصرع تک حدودِ ذہن کے اندر نہیں آیا


نبیؐ کے شہر میں نو دن سرور آیا مُجھے جتنا

سرور اتنا مُجھے باسٹھ برس جی کر نہیں آیا


مدینے نے مُجھے اب تک کُچھ ایسا گھیر رکھّا ہے

نظر کے دائرے میں دوسرا منظر نہیں آیا


مَیں اُس بستی میں اپنے جان و دل لے کر گیا لیکن

مَیں اُس بستی سے اپنے جان و دل لے کر نہیں آیا


مَیں باہر آگیا ہُوں اُس فضائے خُلد سے لیکن

مَیں اب تک اس فضائے خلد سے باہر نہیں آیا


مَیں جِس عالم میں تھا، شاید اُسی عالم میں ہُوں اب بھی

مَیں اُن کے شہر سے لَوٹا اور اپنے گھر نہیں آیا


بہت دل نے کہا کہہ دے، کہ پھر بلوائیے آقا

تقاضائے ادب تھا، چُپ رہا کہہ کر نہیں آیا

شاعر کا نام :- عاصی کرنالی

کتاب کا نام :- حرف شیریں

دیگر کلام

خدا نوازے گا تم کو بس ایک کام کرو

جو پست پست کیا عاصیوں کو وحشت نے

اک روز ہو گا جانا سرکار کی گلی میں

میری ہر سانس پر اُس کی مہر نظر

نُور نظارا کملی والا

کوئی مدہوش ہوجائے کوئی ہشیار ہوجائے

اے جود و عطا ریز

وہ بختاور ہیں جن کو دم بدم یادِ خدا آئے

ہر صبح ہے نورِ رُخِ زیبائے محمدﷺ

تلووں سے شرف یابی پر عرش ہوا نازاں