یارب مرے حروف میں ایسا کمال ہو

یارب مرے حروف میں ایسا کمال ہو

ہر لفظ تیری حمد کا یوں بے مثال ہو


تیری ثنا کے موتی میں چن کر سمیٹ لوں

اور تیری یاد سے ہی مرا دل نہال ہو


گلشن مری حیات کا مہکا رہے سدا

موسم گلابِ سرخ کا ہر ڈال ڈال ہو


ہو جاؤں بندگی میں جو مشغول ہرگھڑی

خورشیدِ بخت کو نہ کبھی بھی زوال ہو


دل کی شبِ سیاہ میں ہو جائے روشنی

پھر چارسو نظر میں ترا ہی جمال ہو


مل جائے تیرا قرب ہے یہ آرزو مری

پھر ناز کو نہ غم ہو نہ کوئی ملال ہو

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

ہر اک شے دا والی توں ایں سب دنیا دا سائیاں

مسند آرائے بزمِ عطا

قلبِ ویراں کو نُور دیتا ہے

ہے مشکل میں تیری یہ مخلوق ساری

تُو خالق بھی مالک بھی ہے بحروبر کا

دوسرا کون ہے، جہاں تو ہے

جانب خدا کی جب تلک مائل

لائقِ حمد حقیقت میں ہے خلّاقِ جہاں

دل میں ہے یاد تیری لب پر ہے نام تیرا

کوئی بھی ہمسر نہیں بندہ ترا