پائی جس صاحبِ صدق نے خلعتِ اصدق الصادقیں

پائی جس صاحبِ صدق نے خلعتِ اصدق الصادقیں

وہ ابوبکر ہے بعد نبیوں کے لوگوں میں افضل تریں


جس کے عہدِ خلافت میں قرآن کو شکلِ مصحف ملی

قول جس کا تھا سب سے زیادہ بلیغ و اثر آفریں


خود پڑھی سرورِ دیں ؐ نے صدیقِ اکبر کے پیچھے نماز

جو با جماعِ امّت ہے آفاق میں آپؐ کا جانشیں


جھوٹے نبیوں کے حق میں جو ثابت ہوا خنجر بے نیام

صاحبِ شاہِ لولاک ؐ ہے نائبِ خاتم المرسلیں ؐ


جو بقولِ علی مومنوں کے لیے رحمدل باپ تھا

خَلق کا مونس و غمگسار انتخابِ شہنشاہِ دیں ؐ


غالب و قاہر اس کی نگاہوں میں تھے خاکسار و نزار

اس کے لطف و کرم سے تھے سر شار سب دل فگار و حزیں


جانِ تائبؔ فدا اس کے اعزاز پر اس کے اکرام پر

ثانی اثنین وہ جو ہوا اوّل السابقیں بالیقیں


ثانی اثنین

صدیق وہ نگاہِ پیمبرؐ کا انتخاب


جس کا نصیب شانِ حضوری ہے تا ابد

اس کا وجود ملتِ بیضا کا اعتبار


قول اس کا معتبر تو عمل اس کا مستند

تھے مال و جاں نثار رسالت مآبؐ پر


طاعت کی مثل ہے نہ سعادت کی کوئی حد

ملحوظ اتباعِ رسولِ کریم ؐ تھا


منظور کوئی شے تھی تو خوشنودئ صمد

شیرِ خدا نے اس کو کہا اشجعِ اُناس


کیا اس سے بڑھ کے اس کی شجاعت کی ہوسند

پائی نہ اس نے آپ کے اخلاص کی مثال


چشمِ فلک نے دیکھے ہیں کتنے ہی جزر و مد

ترویجِ دینِ پاک میں سبقت وہ لے گیا


یکجا تھے اس میں نورِ یقیں ، جوہرِ خرد

حکمت سے ارتداد کا فتنہ کیا فرو


ہر کذب اس کے نورِ یقیں سے ہے مسترد

ملّت پھر اضطرابِ مسلسل میں ہے اسیر


یارب! بحقِ حضرتِ صدیق المدد

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

دیگر کلام

خیرات مل رہی ہے یہ مولا حسین ؑ سے

ہو بغداد کا پھر سفر غوثِ اعظم

ان کی صورت نور کی تفسیر تھی

غمِ عمِ نبیؐ سے دل ہے مغلوب

مظلومِ کربلا کی شہادت مرا سلام

چھڈ دیس نگاراں دا

اوہ پہلا محمدؐ دا ثنا خوان میں قربان

نذرِ امام کرتا ہوں میں اپنی زندگی

وہ علی عابدؔ بنی ہاشم کی غیرت کا نشاں

اک دشتِ بے کسی میں جو سوئیں مرے امامؑ