آواز دی تو رحمتِ سرکار رک گئی

آواز دی تو رحمتِ سرکار رک گئی

جو دِل پہ چل رہی تھی وہ تلوار رُک گئی


جاتا ہُوا وقار مِلا اُن کے نام پر

سر سے گری تو ہاتھ پہ دستار رُک گئی


اِک دائرہ سا اُن کا مرے گرد کھینچ کر

میرے تصوّرات کی پرکار رُک گئی


جب ذہن سب بلندیاں تسخیر کر چُکا

غارِ حِرا پہ رفعتِ افکارِ رُک گئی


پابندِ روز و شب نہ تھی معراجِ مصطفےٰ

جب وہ چلے تو وقت کی رفتار رُک گئی


روضے کو دیکھتے ہی میں سکتے میں آگیا

یا پُتلیوں میں خواہش دیدار رُک گئی


مَیں ساحلِ حضور سے جب لَوٹنے لگا

ایسا لگا کہ زندگی اُس پار رُک گئی


عشقِ نبی نے مُجھ کو مظفّؔر بچا لِیا

جو مُجھ میں گِر رہی تھی وُہ دیوار رُک گئی

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- کعبۂ عشق

دیگر کلام

اپنی الفت عطا کیجئے

شانِ حضور فکرِ بشر میں نہ آ سکے

خدایا ان کے در کی حاضری لکھ دے مقدر میں

مکین و مکاں نے محمدؐ دے صدقے

کملی والے کے جو بھی گدا ہو گئے

محبت کے چشمے ابلنے سے پہلے

نظر اِک چمن سے دو چار ہے نہ چمن چمن بھی نثار ہے

مدحت کے لئے لفظ مجھے دان کرو ہو

وقف نظمی کا قلم جب نعتِ سرور میں ہوا

شاہِ خوباں کی جھلک مانگنے والی آنکھیں