اہلِ جہاں کو درد کا چارا نہیں نصیب

اہلِ جہاں کو درد کا چارا نہیں نصیب

جب تک تری نظر کا اِشارا نہیں نصیب


اس کی جگہ ہے دامنِ رحمت پناہ میں

جِس بے نوا کو کوئی سَہارا نہیں نصیب


ایمان و آگہی ہیں وہی ، زندگی وہی

ان کی عطا نہ ہو تو گزارا نہیں نصیب


وہ عرصہ حیات تو بد تر ہے مَوت سے

جِس لمحہ ہم کو ان کا نِظا را نہیں نصیب


کِس پر کرم نہیں شہِ بے کس نواز کا

ہے کون جس کو ان کا اتارا نہیں نصیب


محروم ہے وہ رحمت پروردِ گار سے

جِس انجمن کو ذِکر تمہَارا نہیں نصیب


جو پا چکا سفینہ عُشاقِ مُصطفؐےٰ

موجو! تمہیں بھی ایسا کِنارا نہیں نصیب


دِل بھی دیا تو سرورِ کونین کو دیا

ہم نے خدا کے فضل سے ہارا نہیں نصیب


خالِدؔ اس آستاں پہ جبیں جگمگا اٹھی

یہ کیسے مان لوں کہ ستارا نہیں نصیب

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

آکھیاں وچ سوہنے ماہی دی تصویر وسائی پھرنا واں

مصروف صبح و شام ہیں ان کی عطا کے ہاتھ

کر نظر کرم دی محبوبا بیکس ہاں میں لاچار ہاں میں

قسم یاد فرمائی قرآں نے جن کی وہی تو مری زیست کے مدعا ہیں

جو دیکھنے میں بڑے دیدہ ور نظر آئے

ایک امی لقب ہے جو محبوب رب پہنچا عرش علی آج کی رات ہے

شہا ! مُجھ سے نکمّے کو شعور و آگہی دے دیں

کیا کہوں کیسے ہیں پیارے تیرے پیارے گیسو

یاربِّ محمد مِری تقدیر جگادے

ہر اک لب پر صدائے مرحبا ہے