اشکوں کو کوئے نور کا سجدہ عطا ہوا

اشکوں کو کوئے نور کا سجدہ عطا ہوا

آنکھوں کو بار بار یہ تحفہ عطا ہوا


حرف و ہنر کو نعت کا رتبہ عطا ہوا

صد شکر مدحتوں کا سلیقہ عطا ہوا


کرتا ہے رشک اس کی بلندی پہ آسماں

جب سے زمیں کو شہرِ مدینہ عطا ہوا


صدیوں سے منتظر تھا حبیبِ غفور کا

کعبہ کو انتظار کا ثمرہ عطا ہوا


جنت نہ ہوگی کوئے مدینہ سے مختلف

شہرِ نبی کو خلد کا نقشہ عطا ہوا


در در بھٹک رہے تھے قلم، فکر اور فن

سنگِ درِ حضور کا رستہ عطا ہوا


جب خاورِ جمیع فلک جلوہ گر ہوئے

ظلمت کدوں کو نور کا مژدہ عطا ہوا


دیکھا ہے اس کو آ کے فرشتوں نے بارہا

جس خوش نظر کو آپ کا جلوہ عطا ہوا


اللہ نے دیا ہے کے ہاتھ سے

اشفاقؔ مجھ کو آل کا صدقہ عطا ہوا

شاعر کا نام :- اشفاق احمد غوری

کتاب کا نام :- صراطِ حَسّان

دیگر کلام

دُعا کو بابِ اثر سے گزار کر دیکھو

پیری کا زمانہ ہے مدینے کا سفر ہے

اگر مرے مصطفیٰؐ نہ ہوتے دمِ وجود و عدم نہ ہوتا

نبی کے راستے کی خاک لوں گا

اب تو در پہ خدارا بلا لیجئے یا نبی تیرے دربار کی خیر ہو

مِرا دل پاک ہو سرکار! دنیا کی محبت سے

آیا لبوں پہ ذِکر جو خیر الانام کا

جب مسجد نبویﷺ کے مینار نظر آئے

جاہ کا نَے حشم کا طالب ہوں

باغِ عالم میں ہے دِلکشی آپ سے