سونے دیتی نہیں فرقت کی یہ ریناں ہم کو
مضطرب رکھتی ہے اک آتشِ پنہاں ہم کو
زندگی جس کے بنا ہے تپِ ہجراں ہم کو
یاد میں جس کی نہیں ہوشِ تن و جاں ہم کو
پھر دکھا دے وہ رخ اے مہر فروزاں ہم کو
جس کو اللہ نے دی عظمتِ لا متناہی
جس کے کوچہ پہ ہو قربان گلی جنت کی
جس کی نکہت سے ہیں سرشار رسول اور ولی
جس تبسم نے گلستاں پہ گرائی بجلی
پھر دکھا دے وہ ادائے گلِ خنداں ہم کو
عرق جسم مطہر سے کھلیں صد گل زار
رخِ گلگوں سے شفق مانگ کے لایا ہے نکھار
جس کے رخسار کی تابش سے زمانے میں بہار
پردہ اس چہرہء انور سے اٹھا کر اک بار
اپنا آئینہ بنا اے مہِ تاباں ہم کو
جس لطافت سے ہے مخلوقِ دوعالم سرشار
جس تبسم سے ہویدا ہیں خدا کے انوار
لبِ محبوب پہ یاقوت کرے جان نثار
پردہ اس چہرہء انور سے اٹھا کر اک بار
اپنا آئینہ بنا اے مہِ تاباں ہم کو
کور دل صاحب کشف اور کرامت ہوجائے
نامہء بختِ سیہ کے لیے برکت ہو جائے
ان کی بس ایک نظر باعث رحمت ہو جائے
گر لبِ پاک سے اقرارِ شفاعت ہوجائے
یوں نہ بے چین رکھے جوششِ عصیاں ہم کو
دیدِ بستانِ نبی ہے فقط ارماں میرا
یعنی ان آنکھوں سے دیکھوں درِ پاک آقا کا
ہے یہ عالم غمِ ہجراں میں دلِ مضطر کا
میرے ہر زخمِ جگر سے یہ نکلتی ہے صدا
اے ملیحِ عربی کر دے نمک داں ہم کو
شاعر کا نام :- سید آل رسول حسنین میاں برکاتی نظمی
کتاب کا نام :- بعد از خدا