جتنی دامنِ زیست میں دولتیں ہیں

(سانیٹٓ)جتنی دامنِ زیست میں دولتیں ہیں

جتنی جودتیں ہیں ، جتنی نُدرتیں ہیں


حسن و خیر کی جتنی بھی صورتیں ہیں

اُن کے خلقِ عظیم کی وسعتیں ہیں


سازِ ہست کے جتنے آہنگ ٹھہرے

استقبال کے دیکھے سامان جتنے


اوجِ فکر کے پائے امکان جتنے

اُن کے اُسوہ پا ک کے رنگ ٹھرے


اُن کے حصّے میں خیرِ کثیر آئی

اعتبارِ وجود ہے نام اُن کا


عہد ساز پیام و نظام اُن کا

اُن کےساتھ کتاب منیرآئی


دُولھا کون حیات برات کا ہے

ضامن حشر میں کون نجات کا ہے

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

سخن کی بھیک ملے یہ سوال ہے میرا

جس نے نمازِ عشق ِ شہ ِ دیں ادا نہ کی

جہاناں دی رحمت میرا کملی والا

جس کی جاں کو تمنّا ہے دل کو طلب

شفیعِ حشر ہی کے سر شفاعتوں کا تاج ہے

میری سانسوں میں تم دل کی دھڑکن میں تم

شہا مرتبے کون جانے تیرے

موسیٰ اُتے چھڈ دے گلاں طور دیاں

دِل پہ اُن کی نظر ہو گئی

نعتِ جامیؒ مع پنجابی ترجمہ