جو عرش کا چراغ تھا میں اُس قدم کی دُھول ہُوں

جو عرش کا چراغ تھا میں اُس قدم کی دُھول ہُوں

گواہ رہنا زندگی میں عاشقِ رسُول ہُوں


مِری شگفتگی پہ پت جھڑوں کا کُچھ اثر نہ ہو

کھِلا ہی جو ہے مصطفیٰ کے نام پر وُہ پھُول ہُوں


مِری دُعاؤں کا ہے رابطہ درِ حضور سے

اسی لیے خُدا کی بارگاہ میں قبول ہُوں


بڑھا دیا ہے حاضری نے اور شوقِ حاضری

مسرتیں سمیٹ کر بھی کِس قدر مَلول ہُوں


مظفّؔر آخرت میں بخشوائیں گے وہی مجھے

کہ سر سے پاؤں تک قصور ہُوں خطا ہُوں بھُول ہُوں

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

مٹھی میں لب کشا ہوئے جب بے زبان سنگ

تقدیر کے سب لعل و گہر لے کے چلا ہوں

ہُوا نہ ہو گا جہان بھر میں ، کوئی رسالت مآب جیسا

یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ

بشر سے غیر ممکن ہے ثنا حضرت محمد کی

نبی کا نام جب میرے لبوں پر رقص کرتا ہے

مجھے مصطفٰے کے ہوتے کس بات کی کمی ہے

تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسولﷺ

کبھی نہ چھوڑے ہے تنہا خیالِ یار مجھے

تری نظروں سے نظروں کا ملانا بھی ہے بے اَدبی