جو گلے لگائے عدو کو بھی وہ رسول میرا رسول ہے
کوئی خالی ہاتھ گیا نہیں یہ میرے سخی کا اُصول ہے
تو جو چاہے راضی ہو مصطفے تو جو چاہے تجھ کو ملے خدا
کسی ٹوٹے دل کو تلاش کر کہ وہ دل خدا کو قبول ہے
جہاں فرشیوں کے قدم لگے جہاں عرشیوں کے بھی سر جھکے
جہاں غمزدوں کو سکوں ملے وہ اک آستانِ رسول ہے
وہ جہاں جہاں سے گزر گئے وہاں پھول مہکے بہار کے
وہ جہاں گئے وہ جہاں رُکے وہاں رحمتوں کا نزول ہے
وہ نبی جو میرا بھلا کرے میری بخششوں کی دُعا کرے
مجھے بھول جائے وہ حشر میں میرے دشمنوں کی یہ بھول ہے
اسے جھک کے چوما ہے عرش نے ہے لگی نبی کے یہ پاؤں سے
اسے ڈال آنکھوں میں شوق سے یہ در رسول کی دُھول ہے
اُسے کوئی ڈر ہے نہ کوئی غم ہے نبی کا اس پر سدا کرم
ہے وہ ہر نگاہ میں محترم جو غلام آل بتول ہے
یہی فیصلے ہیں شعور کے سدا گیت گاؤ حضور کے
نہیں پیار جس کو حضور سے وہ تو آدمی ہی فضول ہے
ہے تجھی سے عظمت سرمدی ہے تجھی سے حسن میں دلکشی
جسے چھو سکے نہ خزاں کبھی تو سدا بہار وہ پھول ہے
یہ نیازی جائے کہاں شہا کہ ہے نام لیوا یہ آپ کا
یہی جا کے کہنا تو اے صبا کہ وہ غمزدہ ہے ملول ہے
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی