جو تری یاد سے منور ہیں

جو تری یاد سے منور ہیں

دل وہ روحانیت کے پیکر ہیں


بخش اِک قطرہِ ثناء آقاؐ

تیرے اوصاف تو سمندر ہیں


جن پہ سب کچھ لٹایا جاتا ہے

وہی محبوبِ ہر پیمبر ہیں


سب حوالے بہارِ عالم کے

آپ کے حسن کے گداگر ہیں


بخششِ رب کی آپؐ ہیں میزاں

رحمتِ رب کے آپؐ محور ہیں


جن کی بھی نوکری قبول ہوئی

لاکھوں ان کی گلی کے چاکر ہیں


تیری ہمت کے آگے ہار گئے

فتنہ و شر کے جتنے لشکر ہیں


صرف دنیا کی مشکلوں میں نہیں

وہ مرے سائبانِ محشر ہیں


سوزِ دل ان کا کوئی کیا جانے

جن پہ پڑھتے درود پتھر ہیں


کتنے خوش بخت ہیں شکیلؔ سبھی

میرے آقاؐ کے جو ثنا گر ہیں

شاعر کا نام :- محمد شکیل نقشبندی

کتاب کا نام :- نُور لمحات

دیگر کلام

آرزوئیں بھی مشکبو کیجے

ہاں بے پر یارسول اللہ کرم کر یا رسول الله

حالِ دل کس کو سناؤں آپ کے ہوتے ہوئے

نعمتیں بانٹتا جِس سَمْت وہ ذِیشان گیا

پسند شوق ہے آب و ہوا مدینے کی

چڑھیا چن ذیقعددا چڑھیا

نامِ شاہِ اُممؐ دل سے لف ہو گیا

تیرے میکدے پر نثار میں مجھے کیا غرض کسی جام سے

اسمِ اعظم مرے آقا کا ہے ایسا تعویذ

نظارا اے دمِ آخر بتا کتنا حسیں ہوگا