کرم چار سو ہے، جدھر دیکھتا ہوں

کرم چار سو ہے، جدھر دیکھتا ہوں

نظر باوضو ہے، جدھر دیکھتا ہوں


مری بزم میں تیرا سکہ رواں ہے

تری گفتگو ہے، جدھر دیکھتا ہوں


نہیں مجھ سے ہوتا جدا میرآقاؐ

مرے روبرو ہے، جدھر دیکھتا ہوں


بنائے گئے سب جہاں تیری خاطر

تری جستجو ہے، جدھر دیکھتا ہوں


نگاہیں جسے اہلِ محشر کی ڈھونڈیں

وہ غمخوار تو ہے، جدھر دیکھتا ہوں


ہوا عشق جس کا مقدر ظہوریؔ

وہی سرخرو ہے، جدھر دیکھتا ہوں

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- توصیف

دیگر کلام

جہان رب نے بنائے حضور کی خاطر

سیرت وکردار دیتے ہیں شہادت آپ کی

ذاتِ نبی کو قلب سے اپنا بنائیے

خدا کے دلارے خدائی کے پیارے

اے کاش! شبِ تنہائی میں ، فُرقت کا اَلَم تڑپاتا رہے

پھر تو لازم ہے تجھے تنگئِ داماں کا ملال

یادِ مدینہ میں دن گذرے آنسو پیتے پیتے

اے ہادئ دارین، مقدّر گرِ آفاق

محبوب کی قربت میں محب کا بھی پتہ ڈھونڈ

گو ذلیل و خوار ہوں کر دو کرم