میں بے نیاز ہوں دنیا کے ہر خزانےسے

میں بے نیاز ہوں دنیا کے ہر خزانےسے

مِلی ہےبھیک مُحمد کے آستانے سے


بہت ہی سونی تھی ، بے کیف تھی خدا کی قسم

سجی ہے محفلِ کونین تیرے آنے سے


مِلا ہے منزل قوسین کا نِشاں مجھ کو

تمہارے نقش کفِ پا پہ سر جھکانے سے


پسِ فنا جو ترے در کی خاک ہوجائے

مریض ہجر کی مٹی لگے ٹھِکانے سے


گدائے بے سرو ساماں ہوں آل کا صدقہ

مجھے بھی دیجئے سرکار کچھ خزانے سے


گناہ گار ہوں ، نسبت مگر منوّر ہے

سنور گیا ہوں ترے در پہ سر جھکانے سے


ہمارے سر پہ ہے دامانِ رحمتِ عالم

نہ مِٹ سکیں گے زمانے ترے مٹانے سے


زہے نصیب بھکاری اُسی کا ہے خالِدؔ

ملی ہے بھیک دو عالم کو جس گھرانے سے

شاعر کا نام :- خالد محمود خالد

کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے

دیگر کلام

رات اور دن شمار کرتے ہیں

حُسنِ رسول پاک کی تنویر دیکھئے

یہ زندگی کا الٰہی نظام ہو جائے

ہے لبِ عیسٰی سے جاں بخشی نِرالی ہاتھ میں

غمِ دنیا سے فارغ زند گی محسوس ہوتی ہے

حبِّ رسولِؐ پاک ہے بنیاد نعت کی

کیا بیاں ہو شان نظمی گلشن برکات کی

سید المرسلیںؐ سلامُ علیک

گھٹا نے منہ چھپا لیا گھٹا کو مات ہو گئی

لگتا ہے دور رہ کے درِ مصطفےٰ سے یوں