"مَیں ، جو یائے مُصطفؐےٰ "

سیّاحِ عرش ، نقشِ کفِ پائے مُصطفؐےٰ

کون و مکاں سفینہ دریائے مُصطفؐےٰ


اِک بوریا نشین نے بانٹی حکومتیں

سَیراب کر گیا ہمیں صحرائے مُصطفؐےٰ


پَلتے ہیں آفتاب ، محمّد ؐ کے سائے میں

ہوتا ہے ذی شعور کو سودائے مُصطفؐےٰ


جلتے رہیں گے میرے لہُو کے چراغ بھی

مَیں بھی ہُوں اِک شہیدِ تمنّائے مُصطفؐےٰ


رنگینیوں کی زندگی کا لالچ نہ دے مُجھے

میں ہوں ہر ایک رنگ میں جو یائے مُصطفؐےٰ


اُن کا کرم نہ ہو تو مَیں اِک پل نہ جی سکوں

چلتی ہے میری سانس بہ ایمائے مُصطفؐےٰ


مِرّیخ و ماہتاب ہیں دُنیا کی منزلیں

میرا عروج ، گنبدِ خضر ائے مُصطفؐےٰ

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- بابِ حرم

دیگر کلام

بے کس پہ کرم کیجئے، سرکار مدینہ​

نبیؐ کا ذِکر مدینے کی بات ہوتی ہے

گدائے در ہیں کرم کے طالب حضورؐ ہم سے نبھائے رکھنا

حوصلہ دے فکر کو اور بارشِ فیضان کر

پلکاں دے اوہلے چمکے تارے حضوریاں دے

سارے پیمبر وں کی امامت کے واسطے

تیرے غم میں جو نہ گزرے بیکار زندگی ہے

بنے ہیں مدحت سلطان دو جہاں کیلئے

ارے ناداں! نہ اِترا داغِ سجدہ جو جبیں پر ہے

محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزّت کا