محبوب خدا سید و سرور کے برابر

محبوب خدا سید و سرور کے برابر

لاؤ تو کوئی میرے پیمبر کے برابر


لاکھوں ہیں زمانے میں سکندر کے برابر

کوئی نہیں آتا ترے نوکر کے برابر


رشک آتا فردوس مکینوں کو بھی ان پر

رہتے ہیں جو خوش بخت ترے گھر کے برابر


جبریل امیں کرتے ہیں جس در کی غلامی

اے کاش رہوں میں بھی اسی در کے برابر


سرکار کی رحمت سے میں مایوس نہیں ہوں

ہیں گرچہ گناہ میرے سمندر کے برابر


کعبے میں ولادت ہوئی مسجد میں شہادت

ہو گا نہ ہوا کوئی بھی حیدر کے برابر


ہر روز اٹھاتے ہیں حضوری کے مزے جو

ہے کون بھلا ان کے مقدر کے برابر


تابانی خورشید فلک خوب ہے لیکن

کیا تاب کہ ہو روئے پیمبر کے برابر


نادان انہیں اپنا سا کہتے ہیں نیازی

ذرہ نہیں ہوتا کبھی گوہر کے برابر

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

جھکیں اونچے اونچے شجر اُس کے آگے

روح نے اللہ سے عشقِ پیمبر لے دیا

میداں میں مانگتا تھا عَدُو اپنے سُر کی خیر

اُن کی مہک نے دِل کے غُنچے کِھلا دئیے ہیں

تمام دنیا یہاں سلامت تمام عالم وہاں سلامت

کون اٹھائے سر تمہارا سنگِ در پانے کے بعد

سرو گل زارِ ربِ جلیل آپ ہی ہیں

لب پہ آقاؐ کے دعا بہرِ ستم گر دیکھ کر

خسروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی

بعثتِ سرور کے صدقے سج گئی بزمِ نشاط