ملیں دین و دنیا کی نعمتیں مجھے کیا نہ میرے خدا دیا
مجھے دی غلامی اولیاء مجھے عشق خیر الوریٰ دیا
ترا نام سن کے مچل گئے ترا نام لے کے سنبھل گئے
میرے لمحے کیف میں ڈھل گئے ترے ذکر نے وہ مزہ دیا
کبھی خواب میں تری دید ہو تری دید ہو میری عید ہو
دے مجھے بھی جلووں کی بھیک دے ترے در پہ دامن بچھا دیا
ترے میکدے میں قرار ہے جہاں بن پئے ہی خمار ہے
نہ اتر سکا نہ اتر سکے ترے نام نے وہ نشہ دیا
شب غم کے رنگ نکھر گئے مرے بگڑے کاج سنور گئے
مری چاہتوں میرے پیار کا یہ میرے نبی نے صلہ دیا
اُٹھے لاکھ طوفان بحر و بر کبھی آندھیوں نے اٹھائے سر
اُسے کوئی بھی نہ بجھا سکا جو دیا نبی نے جلا دیا
میرے دل میں یاد حضور ہے میرا دل خزنیہ نور ہے
اسی نور حسن حضور نے مرا دل مدینہ بنا دیا
مری حسرتوں کا چمن کھلا دل مضطرب کو سکوں ملا
سر بزم میرے حضور نے جو جمال اپنا دکھا دیا
ہے ازل سے میری یہ آرزو ہو دل نیازی میں تو ہی تو
رہے میرے سجدوں کی آبرو ترے در پہ سر کو جھکا دیا
شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی
کتاب کا نام :- کلیات نیازی