ملے گا بخشش کا سب کو مژدہ

ملے گا بخشش کا سب کو مژدہ نگاہِ رحمت شفیع ہو گی

چمک اٹھے گا نصیب سب کا پھر ان کی قسمت رفیع ہو گی


انہی کے آنے کی برکتیں ہیں جہان بھر میں جو رونقیں ہیں

ازل سے تا بہ ابد جہاں میں انہی کی نعمت وسیع ہو گی


شجر حجر ان کے زیرِ فرماں انہی کے بردے ہیں جنّ و انساں

انہی کی اُمّت کثیر ہو گی کہ ساری خلقت مطیع ہوگی


مچیں گی ہر سو انہی کی دھومیں ہویدا ہوں گی انہی کی شانیں

ہے نام ان کا محمد احمد کہ حمد حمدِ بدیع ہوگی


ملے خدایا اگر سعادت مرے قلم کو بھی ہو اجازت

لکھوں وہ تیرے نبی کی سیرت زمانوں تک جو وقیع ہوگی


انہی کی رحمت کا آسرا ہے اُنہی سے ہی عرضِ مدّعا ہے

بدن سے نوری جو جان نکلی تو اس کی منزل بقیع ہو گی

شاعر کا نام :- محمد ظفراقبال نوری

کتاب کا نام :- مصحفِ ثنا

دیگر کلام

دور کر دے دُکھ مدینے والیا

اے صاحبِ معراجﷺ

لب پہ جاری نبیؐ کی ثنا چاہیے

یوں مرے اللہ نے عظمت بڑھائی آپ کی

سہارا چاہیے سرکار ﷺ زندگی کے لۓ

دل کو اُن سے خدا جُدا نہ کرے

سد در تے سوہنیا روضے دا دیدار کرن نوں جی کر دا

جو دیکھیں گے اُن کی شفاعت کا منظر

ایک جذبے کے نام ایک مقصد کے نام

جو ہو چکا ہے جو ہو گا، حضور جانتے ہیں