قدموں سے پھُوٹتی ہے چمک ماہتاب کی

قدموں سے پھُوٹتی ہے چمک ماہتاب کی

دہلیز پر کھڑا ہُوں رسالت مآب کی


ہے چہرۂ رسُول نگاہوں کے سامنے

تفسیر پڑھ رہا ہُوں مَیں اُمّ الکِتاب کی


اُس والیِ بہار کا دامن ہے ہاتھ میں

مٹّی ہے جس کے سامنے خُوشُبو گُلاب کی


مُجھ بے نوا فقیر کی آنکھیں سوال ہیں

خیرات مانگتی ہے سماعت جواب کی


گھر جس کو پانیوں پہ بنانے سکھائے تھے

رُلتی ہے ساحلوں پہ وُہ اُمّت جناب کی


روضے کی جالیوں سے جکڑ دیجئے مجھے

زنجیر کاٹ دیجے مِرے اضطراب کی


سویا ہُوا ہوں آپ کے قدموں کی خاک پر

تعبیر بھی ہو کاش یہی میرے خواب کی


جذبِ جمال ہو کے بھی چمکی نہیں نظر

مُجھ کو صلاحیّت ہو عطا اِکتساب کی


سانسیں ہیں پُل صراط مظفّر کے واسطے

دُنیا بھی اِک مثال ہے روزِ حساب کی

شاعر کا نام :- مظفر وارثی

کتاب کا نام :- امی لقبی

دیگر کلام

الله الله رفعت و عظمت رسول اللہ کی

ہے کائنات کے خالق کا نام وردِ زباں

سارا عالم سجا آج کی رات ہے

کرو رحمتاں ہُن عطا یا نبی

آسمانِ مصطفٰےؐ کے چاند تاروں پر دُرود

مُجتبیٰ وی مُصطفیٰ وی

لج پال جے راضی ہو جاوے دنیا نوں مناون دی لوڑ نئیں

ہادئ پاک و خیر البشر آپؐ ہیں

اپنی اطاعت اپنی محبت مجھے بھی دو

دلوں کی جوت جگا دو کہ روشنی ہو جائے