وہ نام آئے زبان و لب پر تو دل میں تازہ گلاب اُتریں

وہ نام آئے زبان و لب پر تو دل میں تازہ گلاب اُتریں

نظر کی غارِ حرا میں کتنے ہی لفظ بن کر کتاب اُتریں


اُسی کے حُسنِ عطا کے باعث ہو رحمتوں کا نزول مجھ پر

اُسی کے دامن کو چھُو کے دونوں جہاں کے مجھ پر ثواب اُتریں


میں شام ہوتے ہی ڈوب جاؤں لطیف سوچوں کی نکہتوں میں

اُداس بوجھل ، دراز پلکوں پہ خوبصورت سے خواب اُتریں


مرے شکستہ بَدن پہ اُس کا ہزار سمتوں سے نُور برسے

مری دُعاؤں کی سرزمیں پر محبتوں کے سحاب اُتریں


عجیب اُس کی بصیرتیں ہیں کہ جن کے آگے زمانے بھر کے

بکھر بکھر کر سوال ابھریں نکھر نکھر کر جواب اُتریں


لہو میں کرلوں میں جذب انجؔم جمیل سوچیں تمام اُس کی

یہ عین ممکن ہے اس طرح کچھ حقیقتوں کے نقاب اُتریں

شاعر کا نام :- انجم نیازی

کتاب کا نام :- حرا کی خوشبُو

دیگر کلام

زبان ذکرِ نبی سے تر ہے

جب سے دل کی صدا یا نبیﷺ ہو گئی

کونین دے مالک تے مختار دیاں گلاں

ترے عاشقوں کا ہے عاشق زمانہ

بارگاہِ تخیل میں

میرے مولا میرے سروَر رحمۃٌ لِّلْعالمیں

ہر پاسے خوشی اَج وَسدی اے

ہے اُن کی زمیں اور، فلک اور، سماں اور

دل ہُوا جس وقت یک سُو

نہ ایں کہہ کر پکاریں گے نہ آں کہہ کر پکاریں گے