ذرّے جھڑ کر تری پیزاروں کے

ذرّے جھڑ کر تری پیزاروں کے

تاجِ سر بنتے ہیں سَیّاروں کے


ہم سے چوروں پہ جو فرمائیں کرم

خِلْعَتِ زر بنیں پُشتاروں کے


میرے آقا کا وہ در ہے جس پر

ماتھے گھس جاتے ہیں سرداروں کے


میرے عیسیٰ تِرے صدقے جاؤں

طور بے طور ہیں بیماروں کے


مجرمو ! چشمِ تبسم رکھو

پھول بن جاتے ہیں انگاروں کے


تیرے اَبرو کے تَصَدُّق پیارے

بند کرّے ہیں گرفتاروں کے


جان و دل تیرے قدم پر وارے

کیا نصیبے ہیں ترے یاروں کے


صِدق و عَدل و کرم و ہمّت میں

چار سو شُہرے ہیں اِن چاروں کے


بہرِ تَسلیمِ علی میداں میں

سر جھکے رہتے ہیں تلواروں کے


کیسے آقاؤں کا بندہ ہوں رضاؔ

بول بالے مِری سرکاروں ک

شاعر کا نام :- احمد رضا خان بریلوی

کتاب کا نام :- حدائقِ بخشش

دیگر کلام

ترے نُور کا دائرہ چاہتا ہوں

جب خیالوں میں بلاغت کا صحیفہ اترا

دِنے رات ایخو دعا منگناں ہاں

ہر اک ذرے میں احمد کا گزر ضو بار باقی ہے

دلِ مُضطر کی حالت ہے تُجھے معلوم یا اللہ

یانبی لب پہ آہ و زاری ہے

بات وہ پیرِ مغاں نے مجھے سمجھائی ہے

مجھ کو درپیش ہے پھر مُبارَک سفر

اس سے ظاہر ہے مقام و مرتبہ سرکار کا

ترے کرم کا خدایا کوئی حساب نہیں