زندگی کا قرینہ ملا آپ سے

زندگی کا قرینہ ملا آپ سے

نعت کا بھی خزینہ ملا آپ سے


دل کی تاریکیوں میں ضیا آ گئی

ایک روشن ہوا ہے دیا آپ سے


دور طیبہ سے رہ کر بھی دوُری نہیں

رابطہ میری جاں کا ہوا آپ سے


میرے گلشن سے خوشبو ہے آنے لگی

جب سے مہکا پسینہ ملا آپ سے


جس طرف سے سواری گزرتی گئی

ہو گیا کہکشاں راستہ آپ سے


ورد صلے علی کا میں کرتی رہی

فیض مجھ کو ملا بے بہا آپ سے


جب سے زہرہ کے در کی غلامی ملی

مل گئے ہیں خزانے شہا آپ سے


رحمتیں مل گئیں روشنی آ گئی

حالِ دل ناز نے جب کہا آپ سے

شاعر کا نام :- صفیہ ناز

کتاب کا نام :- شرف

دیگر کلام

سدا ممنونِ احساں ہوں کہ

بے نقطہ و نکتہ دانِ عالم

کردیاں مست فضاواں طیبہ پاک دیاں

محمدؐ کی نعتیں سناتے گزاری

سر شام گنبدِ سبز تک جو با احترام نظر گئی

تریؐ سرزمیں آسماں چومتا ہے

بھنور وچ ڈولدا میرا سفینہ

ہے تم سے عالم پرضیا ماہِ عجم مہرِ عرب

زیارت کر چکی بیدار خوابی یارسولؐ اللہ

وہ دن بھی آئیں گے، ہوگی بسر مدینے میں