الوداع اے ماہِ رمضاں الوداع

الوداع اے ماہِ رمضاں الوداع

الوداع اے جانِ ایماں الوداع


تیری راتوں کی عبادت بھی مِلی

تیری صُبحوں کی مسرت بھی ملی


بھُوک میں رہ رہ کے لذّت بھی ملی

اور پھر فرقاں کی دولت بھی ملی


تیری آمد سے ہمیں عزّت ملی

دین و دنیا کی ہمیں عظمت ملی


میری عزت تیری عظمت پر نثار

میرا ایماں تیری شوکت پر نثار


تیری گردِ راہ تاجِ اولیا

تیرا ذکرِ خیر جانِ اصفیا


سال بھر تیرا رہے گا انتظار

ہم کو تڑپاتا رہے گا تیرا پیار


الوداع اے ماہ رمضاں الوداع

الوداع اے جانِ ایماں الوداع

شاعر کا نام :- محمد اعظم چشتی

کتاب کا نام :- کلیاتِ اعظم چشتی

دیگر کلام

خزاں کی شام کو صبح ِ بہار تو نے کیا

ہم کو دعویٰ ہے کہ ہم بھی ہیں نکو کاروں میں

جوبنوں پر ہے بہارِ چمن آرائی دوست

یادِ وطن سِتم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں

مارکس کے فلسفہء جہد شکم سے ہم کو

پانج پیروں کی جس پر نظر پڑ گئی اس کا رشتہ مدینہ سے جُڑ سا گیا

شرحِ واللّیل ہیں گیسوئے معنبر راتیں،

بو لنے دو

آؤ ہم بھی اپنے گرد لکیریں کھینچیں

ہستئ لازوال ہیں ہَم لوگ