شرحِ واللّیل ہیں گیسوئے معنبر راتیں،

شرحِ واللّیل ہیں گیسوئے معنبر راتیں،

نُصرتِ دینِ مُحمّدؐ کی پیمبر راتیں


ایسی راتوں میں بنا کرتی ہے تاریخِ اُمم

لَا اِلٰہ کہہ کے اُبھرتی ہیں اُفق پر راتیں


ایسی راتوں کے اندھیروں کو اُجالوں کا سلام

نُورِ ایمان و یقیں سے ہیں منوّر راتیں !


ایسی راتوں میں چلا کرتی ہے شمشیرِ علی ؑ

خونِ کُفّار سے تر ہوتی ہیں خود سَر راتیں


ایسی راتوں میں ملا کرتا ہے منزل کا سلام

شبِ اسریٰ کی قسم دن سے ہیں بہتر راتیں


ایسی راتوں میں شیا طین کے سر کٹتے ہیں

صفِ اعداء کو اُلٹ دیتی ہیں خنجر راتیں


پیڑ چُپ چاپ، مکاں بند، فضائیں ساکت

ہار سنّا ٹوں نے گوندھے ہیں پَرو کر راتیں


محوِ حیرت ہَے فلک اور زمیں ہے خا موش

خرمنِ کُفر پہ اُتری ہیں یہ اخگر راتیں


ایک مُدّت سے نگہ ڈھونڈ رہی تھی اِن کو

آج آئی ہیں بہت دُور سے چل کر راتیں


ایسی راتوں میں قریب رگِ جاں ہے کوئی

شانّہ دل پہ پریشاں ہیں بکھر کر راتیں


صف شکن شیر جوانوں کی جوانی کی قسم

دیکھنےآئی ہیں اسلام کا لشکر راتیں


ذرّے ذرّے کے جگر سے یہ صَدا آتی ہَے

اوڑھ کر آئی ہیں تطہیر کی چادر راتیں !


جام و مینا لیے آتی ہیں شہیدوں کے لیے

مئے خونناب کے پردے میں ہیں کوثر راتیں


میرے شہباز مجاہد میرے جانباز جواں ،

مُسکراتی ہیں ترے دیکھ کے تیور راتیں !


تو اکیلا نہیں میدان میں بیدار کہ آج

ہم بھی کرتے ہیں بسر پھینک کے بستر راتیں


باعثِ شُکر کہ افلاک سے چل کر آئیں !

اپنے بازو میں لیے قوّتِ حیدرؑ راتیں


یا علیؑ کہہ کے جھپٹنا ہے صفِ اِعدا پر !

کاٹنے آئی ہیں کُفّار کے شہپر راتیں


حشر تک یاد کرے گا انہیں کافر دشمن

اپنے پہلو میں لیے بیٹھی ہیں محشر راتیں !


صُبح لائے گی ابھی فتح مبیں کا مُژدہ

آئی ہیں نُور پہ ہونے کو نچھا ور راتیں !


چشم، بینا سے ٹپکتے ہیں جو آنسو واصؔف

انہی اشکوں کو بنا جاتی ہیں گو ہر راتیں !

شاعر کا نام :- واصف علی واصف

کتاب کا نام :- شبِ چراغ

دیگر کلام

دیارِ جاں میں

صبحِ شبِ ولادت بارہ ربیع الاول

تاریخ خانوادہ برکاتیہ

بعدِ رَمضان عید ہوتی ہے

دل سے مِرے دنیا کی محبت نہیں جاتی

کیسا چمک رہا ہے یہ پنجتن کا روضہ

غم کے بادَل چھٹیں قافلے میں چلو

آج مولیٰ ؔبخش فضلِ رب سے ہے دولھا بنا

سنَّت کی بہار آئی فیضانِ مدینہ میں

اے خدا ‘ دِل تو آئنہ سا تھا