جتنی اُلجھنیں ہیں ، جتنی کلفتیں ہیں

جتنی اُلجھنیں ہیں ، جتنی کلفتیں ہیں

میرے بخت کی جتنی خرابیاں ہیں


آقاؐ آپؐ کی ایک نگاہ تک ہیں

پھر شادابیاں ہی شادابیاں ہیں


مِٹ کے ملیں جو آپؐ کے راستے سے

جو نصیب ہوں آپؐ کے واسطے سے


سرفرازیاں وہ سرفرازیاں ہیں

کامیابیاں وہ کامیابیاں ہیں


لمحہ لمحہ اک آپؐ کی دید چاہوں

لحظہ لحظہ بس آنکھ کی عید چاہوں


کتنے مزے کی مری بے چینیاں ہیں

کتنی قیمتی مری بے خوابیاں ہیں


لُطف آپؐ کا شاملِ حال پایا

کربِ ہجر میں کیفِ وصال پایا


گویا دھڑکنیں چاپ سرکارؐ کی ہیں

خوشبو آپؐ کی یہی بے تابیاں ہیں


تائبؔ آپ کا ہو کے فقیر آقاؐ

حرص و آز کا کیوں ہو اسیر آقاؐ


ساری نعمتیں قدموں میں آپؐ کے ہیں

دستِ پاک میں خُلد کی چابیاں ہیں

شاعر کا نام :- حفیظ تائب

کتاب کا نام :- کلیاتِ حفیظ تائب

دیگر کلام

لکھوں مدح پاک میں آپ کی مری کیا مجال مرے نبی

بیند جو پیمبرؐ را، گوید خورشیدِ سما سبُحانَ اللہ

سر تا قدم برہان ہو

سناندی اے کوئی کہانی نبیؐ جی

اے سکونِ قلب مضطر اے قرارِ زندگی

ہر پھول کو فیضاں تری تعطیر سے پہنچا

سکون قلب و نظر عشق

زمانے بھر کے ٹھکرائے ہوئے ہیں

یہ دِل عرشِ اَعظم بنا چاہتا ہے

جی کردا ویکھاں اوہ نگری جتھے رحمت جھڑیاں لائیاں نے