عقل محدود ہے عشق ہے بیکراں یہ مکاں اَور ہے لامکاں اَور ہے
راہ میں انکی سدرہ ہے گردِ سفر وہ جہاں تک گئے وہ جہاں اَور ہے
آج مہکی ہوئی ہے فضائے جہاں آج بزمِ جہاں کا سماں اَور ہے
رونق افروز ہیں خود حبیبِ خدا آج سامانِ تسکین ِ جاں اَور ہے
اَور کیا چیز یہ ذوقِ عرفان ہے صرف طرزِ نظر ہی کا فیضان ہے
عقل والوں نے کچھ اور سمجھا تمہیں عشق والوں کا لیکن گماں اَور ہے
بخششِ حق کے آثار ہی اس جگہ میرا ایماں ہے سرکارؐ ہیں اس جگہ
جس جگہ ذکرِ سرور کے انوار ہیں وہ فضا اَور ہے وہ سماں اَور ہے
جس کے صدقے سے قائم ہے ہر آستاں جس پہ قربان تقدیسِ کون و مکاں
آستانے تو بیشک بُہت ہیں مگر وہ کرم آفریں آستاں اَور ہے
کیوں حجابوں میں الجھی ہوئی ہے نظر ایسا طرزِ نظر تو نہیں معتبر
حُسنِ شمس و قمر میں یہ تابش کہاں کوئی در پردہ جلوہ فشاں اَور ہے
اک بیاں وہ ہے جسمیں حضوری نہیں اک بیاں ایسا ہے جسمیں دوری نہیں
جس کو سن کر مدینہ ہی بن جائے دل اہل دل کا وہ حُسن ِ بیاں اَور ہے
خاکِ پایہ بھی رو می و جامی کی ہے اک سند یہ بھی انکی غلامی کی ہے
پھر بھی کہتے ہیں خالدؔ کے بارے مین سب نعت میں اسکا رنگِ بیاں اور ہے
شاعر کا نام :- خالد محمود خالد
کتاب کا نام :- قدم قدم سجدے