ہیں مہر و ماہتاب کی ہر سُو تجّلیات

ہیں مہر و ماہتاب کی ہر سُو تجّلیات

عکسِ رُخِ حضور سے روشن ہے کائنات


یہ انتہائے لُطف کہ وہ اور میرے عمل

اس پہ یہ مستزاد کہ میں اور ان کی بات


محرومِ سوزِ عشق عبادت کے لاکھ دن

دیدِ جمال یار میں سجدے کی ایک رات


خیر الورےٰ کا در ہے نگاہوں کے رُو بُرو

بھُولے ہوئے ہیں مُجھ کو زمانے کے حادثات


وصفِ نبی قلم سے رقم کیسے ہوسکے

میرے تخیلات سے اونچی ہے ان کی ذات


کہہ دوں گا میں ظہوریؔ فرشتوں سے قبر میں

ذکرِ حضورؐ ہے مرا سرمایۂِ حیات

شاعر کا نام :- محمد علی ظہوری

کتاب کا نام :- نوائے ظہوری

دیگر کلام

تاجدار حرم ایک چشم کرم کوئی آقا نہیں آپ سا یا نبی

بُلا لیجے گا عاصی کو بھی در پر یا رسول اللہ

کہو یانبیؐ بڑی شان سے

حالِ دل کس کو سناؤں آپ کے ہوتے ہوئے

خدا دی خُدائی محمد دے در تے

انمول خزانوں کا خزینہ ہے مدینہ

کوئی محبوب کبریا نہ ہوا

دوہاں عالماں چہ ہوئیاں رُشنائیاں ہے نور بے مثال آگیا

عظمتِ تاریخِ انساں ہے عرب کی سرزمیں

حسن خود ہووے دل و جاں سے نثارِ عارض