پیغامِ محبت پیش کیے جب شہ نے ستم گر کے آگے
پتھر کا کلیجہ موم ہوا اخلاقِ پیمبر کے آگے
خورشید و قمر سے انجم تک ہر شمعِ فلک بے نور لگے
سرکارِ دو عالم کے روئے زیبائے منور کے آگے
رعنائیِ طورِ سینا سے نیرنگیِ باغِ ایمن تک
ہر ایک نظارہ ہیچ لگے طیبہ ترے منظر کے آگے
محشر میں شفاعت کا مژدہ، امت کو سنائیں گے آقاؐ
فریاد کناں امت ہوگی جب شافعِ محشر کے آگے
دہلیزِ نبیؐ کا ہر منگتا شاہانِ جہاں سے کہتا ہے
خوش بختیِ شاہی کچھ بھی نہیں اس شانِ گداگر کے آگے
سدرہ پہ شبِ اِسرا دیکھو سرکار کی رفعت کا منظر
شہپر کو سمیٹے بیٹھے ہیں جبریل پیمبر کے آگے
آغازِ خلافت میں آیا جب مسٔلۂ انکارِ زکوٰۃ
ناکام ہوئی ہر فتنہ گری صدیق کے تیور کے آگے
وہ جاہ و جلالِ نامِ عمر لرزاں تھا جسے باطل سن کر
ڈرتے تھے شیاطیں آنے سے فاروقِ دلاور کے آگے
جب جب بھی ضرورت آن پڑی اسلام کو مال و دولت کی
لا لا کے خزینے ڈھیر کیے عثمان نے سرور کے آگے
وہ جن کا لقب ہے شیرِ خدا بے مثل شجاعت ہے جن کی
ٹھہرے گا کوئی روباہ صفت کیا ایسے غضنفر کے آگے
مل جائے نبیؐ کی چوکھٹ کی جاروب کشی گر احسؔن کو
معراجِ بلندی لکھ جائے احسؔن کے مقدر کے آگے
شاعر کا نام :- احسن اعظمی
کتاب کا نام :- بہارِ عقیدت