وہ ذات بیکس و مجبُور کا سہارا نہ ہو

وہ ذات بیکس و مجبُور کا سہارا نہ ہو

یہ اور بات ہمی نے انہیں ؐ پکارا نہ ہو


خدا نے آپؐ کو دُنیا میں اس لئے بھیجا

مصافِ زیست میں انسان بے سہارا نہ ہو


وہ دُشمنوں سے بھلا انتقام کیا لیتے

ستمگروں پہ بھی جِن کو ستم گوارا نہ ہو


وہ آج شہرِ سکوں ہے‘ جہاں پہ آقاؐ نے

کبھی سکُون کا اک لمحہ بھی گزارا نہ ہو


تمام عُمر خدائی سے پیار میں گزری

خدا کے بندوں کا پیارا خدا کو پیارا نہ ہو


حضُورؐ ایسے بھی مہجور پر کرم کہ جسے

سفر کا شوق ہو لیکن سفر کا یارا نہ ہو


حنیفؔ میں بھی کروں اب کے اہتمامِ سفر

کہیں اُدھر سے مری سمت بھی اشارا نہ ہو

شاعر کا نام :- حنیف اسعدی

کتاب کا نام :- ذکرِ خیر الانام

دیگر کلام

شمس و قمر نجوم کی تنویر کچھ نہ تھی

خدا دی خُدائی محمد دے در تے

دل میں عشقِ مصطفی کا رنگ بستا جائے ہے

نظر تم سا نہیں آتا نظر ڈالے جہاں کوئی

اللہ دے حبیب تھیں جس پیار پا لیا

سکندی نہ ہمیں سروری چاہیے

پھر ابر کرم برسا رحمت کی گھٹا چھائی

جو ہے نعتِ سرور سنانے کے قابل

دل سے خیال گنبد خضری نہ جائے گا

آپؐ کی سیرت کا اَب تک ذائقہ بدلا نہیں