ہوئی ہیں مستجاب دعائیں کبھی کبھی

ہوئی ہیں مستجاب دعائیں کبھی کبھی

چلتی ہیں رحمتوں کی ہوائیں کبھی کبھی


اشکوں کی روشنی میں کریں ذکر مصطفیٰ

پلکوں پہ یہ دیے بھی جلائیں کبھی کبھی


آئے نظر وہ خواب میں تو نیند کھل گئی

قسمت نے دی ہیں یوں بھی سزائیں کبھی کبھی


اٹھے جدھر نگاہ تو ہوں سامنے حضور

یہ کیوں کہیں کہ جلوہ دکھائیں کبھی کبھی


آنسو نبی نعت پڑھیں ہر نفس درود

ایسے بھی ان کی بزم سجائیں کبھی کبھی


ملتا ہے بے سبب کبھی طیبہ کا اذن بھی

ہوتی ہیں اس طرح بھی عطائیں کبھی کبھی


کتنا بڑا کرم ہے یہ یاد حضور کا

آتی ہیں ان کی دل سے صدائیں کبھی کبھی


چھینٹا کرم کا کوئی نیازی یہ بھی حضور

بادل کرم کے جھوم کر آئیں کبھی کبھی

شاعر کا نام :- عبدالستار نیازی

کتاب کا نام :- کلیات نیازی

دیگر کلام

مصطفٰی خیرُالْوَرٰے ہو

وہ جو میثاق نبیوں سے باندھا گیا اس کا تھا مدعا خاتم الانبیاء

ذرّے جھڑ کر تری پیزاروں کے

الفاظ نہیں ملتے سرکار کو کیا کہیے

خوشبوئے دشت ِطیبہ سے بس جائے گر دِماغ

محمدؐ کی نعتیں سناتے گزاری

تری دعوت سے پتھر بن گئے انساں

پانی لالا پھاوے ہوئے

مجھے انکی یادوں نے آواز دی ہے

اُنگلی نوں ذرا ہلا کے چن توڑ دکھایا سوہنے نے